مانندِ شمعِ مجلس شب اشک بار پایا
القصّہ میرکو ہم بے اختیار پایا
احوال خوش انھوں کا ہم بزم ہیں جو تیرے
افسوس ہے کہ ہم نے واں کا نہ بار پایا
شہرِ دل ایک مدت اجڑا بسا غموں میں
آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا
اتنا نہ تجھ سے ملتے نَے دل کو کھو کے روتے
جیسا کیا تھا ہم نے ویسا ہی یار پایا
کیا اعتبار یاں کا پھر اُس کو خوار دیکھا
جس نے جہاں میں آکر کچھ اعتبار پایا
آہوں کے شعلے جس جا اٹھتے تھے میرسے شب
واں جا کے صبح دیکھا مشتِ غبار پایا
Related posts
-
احمد فراز ۔۔۔ آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اُتر جائے گا وقت کا کیا ہے گزرتا ہے... -
محمد علوی ۔۔۔ دن میں پریاں کیوں آتی ہیں
دن میں پریاں کیوں آتی ہیں ایسی گھڑیاں کیوں آتی ہیں اپنا گھر آنے سے پہلے... -
سید آل احمد ۔۔۔ سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی
سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی ملے ہیں زخم ترے قرب کی بہار سے...